Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

دادی کی بات اس کیلئے بے حد حیران کن تھی۔ وہ حقیقت سے بے خبر ضرور تھیں مگر ان کے احساس نے کسی ادراک کو پا لیا تھا اور وہ بنا کسی کی نشاندہی پر درست راستے پر گامزن تھیں اور اس کو احساس ہوا گھر میں بزرگوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی کیسی گراں قدر نعمتیں موجود ہوتی ہیں۔

جن کے وجود کی برکت سے  جن کی دعاؤں کی کثرت سے پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں  بلائیں ٹل جاتی ہیں  عائزہ تو جا چکی تھی ایک بار نہیں دوباروہ بھی مکمل انتظام کے ساتھ اور دادی کی دعاؤں کی طاقت اسے کھینچ کر واپس لے آئی اور اس رات کی رسوا کن سیاہی ان کے چہرے پر تباہی کی سیاہی بن کر پھیلنے سے رہ گئی تھی۔
دادی کو وہ دل و جان سے چاہتا تھا اور اب تو ان سے وہ عقیدت کا رشتہ بھی جوڑ بیٹھا تھا۔

وہ رات کو عامرہ کے یہاں رکنے پر راضی نہ ہوئی تھیں اور وہ چاہتا بھی نہیں تھا کہ وہ رات وہاں قیام کریں سو ان کو گھر لے آیا تھا۔
(جاری ہے)

اب ان کے منع کرنے کے باوجود بھی ان کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔

”دادو! کل آصفہ پھوپو کے ہاں ڈراپ کر دوں آپ کو؟ رات کو آفس سے واپسی پر لیتا آؤں گا۔
“ اس نے استفسار کیا۔

”نہیں میرے بچے! روز روز کہاں جانے والوں میں سے ہوں میں  وہ تو بس طبیعت بے چین ہو رہی تھی تو چلی گئی اور وہاں جا کر کون سا قرار مل گیا۔ وہ ہی بے چینی سی بے چینی ہے۔“ وہ دھیمے لہجے میں چھت کو گھورتے ہوئے بولیں۔

”دادی جان! آپ پری کو یاد کر رہی ہیں؟“

”ارے وہ مجھے بھولتی ہی کب ہے  جو اسے یاد کروں گی؟ وہ مجھے ہر وقت یاد رہتی ہے  ہر وقت فکر لگی رہتی ہے مجھے اس کی  سوچا تھا آصفہ  عامرہ کے ماشاء اللہ بیٹے ہیں دونوں میں سے کسی ایک کیلئے پری کا ہاتھ مانگ لوں گی۔
‘ وہ کہہ کر خاصی دیر کو خاموش ہو گئی تھیں گویا خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہوں اور وہ سمجھ کر بھی ان کی بات ناسمجھنے کی سعی میں لگا ہوا تھا۔

”لیکن تم نے دیکھا آج عامرہ کتنی نفرت سے پری کے متعلق بات کر رہی تھی  اس کی ماں کے گناہوں کی سزا یہ لوگ اس بچی کو کیوں دینا چاہتے ہیں؟“ وہ پری کی محبت میں بے حد جذباتی ہو رہی تھیں۔

”دادو! آپ کیوں اتنی فکر مند ہو رہی ہیں اس کے نصیب میں کوئی نہ کوئی لکھا ہوگا ناں  جو اسے مل جائے گا۔
“ اس نے بھرپور انداز میں انہیں تسلی دی۔

”ہاں! ٹھیک کہہ رہے ہو تم  یہ فیصلہ وقت کرے گا  جاؤ جا کر سو جاؤ  خوش رہو۔ بہت خدمت کرتے ہو میری۔“ ان کی دعاؤں کی پھورا میں بھیگتا ہوا وہ اپنے کمرے میں چلا آیا تھا اور دادی کی سوچیں بھی اس پر حاوی ہونے لگی تھیں۔ وہ نائٹ سوٹ اٹھا کر واش روم کی طرف بڑھ گیا اور جب چینج کرکے آیا تو کچھ دیر تک ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا بال بناتا رہا پھر پرفیوم اٹھا کر اسپرے کیا اور اسی لمحے اس کی نگاہ کرسی پر بیٹھی عادلہ پر پڑی تھی۔

”تم… اس وقت یہاں…؟“

###

اب کوئی کیا میرے قدموں کے نشان ڈھونڈے گا

تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں

شدت غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی

کچھ دیے تند ہواؤں سے بھی لڑ جاتے ہیں

عادلہ کو اس وقت دیکھ کر وہ بے حد حیران رہ گیا تھا جب کہ وہ بے خوف انداز میں بیٹھی اسے مسکراتے ہوئے بڑے اعتماد سے دیکھ رہی تھی۔

”عادلہ! کوئی پرابلم ہے…؟ تم اس وقت میرے روم میں کیا کر رہی ہو؟“ لمحے بھر میں اس کا خیال عائزہ کی طرف گیا تھا مگر عادلہ کے چہرے پر پھیلی پر سکون مسکراہٹ نے اس کے خیال کی نفی کر دی۔

”کوئی پرابلم نہیں ہے… مجھے نیند نہیں آ رہی تھی سوچا آپ سے ہی جا کر کچھ گپ شپ کر لی جائے۔“ وہ بہت اعتماد بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی۔

”طغرل نے بھی بہت دنیا دیکھی تھی  بے حد آزاد ماحول میں ایک عمر گزاری تھی اس نے  جس میں حد درجہ آگہی و شعور سے روشناس ہوا تھا وہ۔
سامنے بیٹھی اس لڑکی کی بے باک نگاہیں جذبوں سے لبریز تھیں۔ طغرل کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئی تھیں۔

”آپ کھڑے کیوں ہیں… بیٹھیں نا۔“

”مجھے نیند آ رہی ہے اور میں تمہیں بالکل ٹائم نہ دے سکوں گا۔“ اس کے لہجے میں کھردرا پن سمٹ آیا تھا اور عادلہ نے اس کے چہرے پر پھیلتی ناپسندیدگی پوری شدت سے محسوس کی تھی۔

”لیکن مجھے تو آپ کی آنکھوں میں نیند کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
“ وہ اٹھ کر اس کے قریب آ گئی۔ ”آپ مجھے ٹالنے کی کوشش مت کریں  میں جانتی ہوں آپ اتنی جلدی سونے کے عادی نہیں ہیں۔“

”عادلہ! تم نا سمجھ نہیں ہو  جو تمہیں ہر بات سمجھانی پڑے۔ تمہارا اس طرح میرے روم میں آنا مجھے ذرا پسند نہیں آیا۔“ وہ اس کی ڈھٹائی پر سخ پا ہونے لگا

”اس میں غصہ کرنے والی بات تو نہیں ہے۔“

”ہم بچے نہیں ہیں عادلہ! بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔

”میں نے کب کہا ہم بچے ہیں؟“ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ذو معنی لہجے میں گویا ہوئی۔“ یہی تو میں آپ کو سمجھانا چاہ رہی ہوں  میں محبت کرتی ہوں آپ سے…“

”شٹ اپ…! وہ اس کی بات قطع کرکے غرایا تھا۔ ”نکل جاؤ یہاں سے… آؤٹ  تمہیں احساس ہے تم کیا بکواس کر رہی ہو؟“ وہ شدید غصے میں آپے سے باہر ہو رہا تھا۔

”محبت کرنا کوئی جرم تو نہیں ہے۔

طغرل کے شدید اشتعال سے وہ خوف سے کانپ اٹھتی تھی مگر جانتی تھی اس وقت اگر اس سے بات ادھوری رہی تو پھر ادھوری ہی رہے گی اور وہ کہاں برداشت کر سکتی تھی ادھوری محبت کا دکھ۔

”جرم ہے… میرے لئے جرم ہے  میں نے کبھی تمہیں اس نظر سے نہیں دیکھا اور نہ دیکھنے کا ارادہ ہے۔“ طغرل نے سخت اور دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔

”کیوں مجھ میں کیا کمی ہے؟ میں خوبصورت اور جوان نہیں ہوں۔

”میرا تم سے بحث کرنے کا کوئی موڈ نہیں ہے اور یاد رکھنا  آئندہ تم نے مجھ سے اس قسم کی کوئی بکواس کی تو میں تمہارا منہ توڑ دوں گا۔“ اس نے گیٹ کھولتے ہوئے غصے سے وارننگ دیتے ہوئے اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ اس کے انداز میں اہانت تھی۔ عادلہ کا دل بند ہونے لگا تھا۔

اس نے آنسو بھری نگاہوں سے طغرل کی طرف دیکھا مگر وہ اس وقت اس قدر پتھریلے تاثرات چہرے پر لئے کھڑا تھا کہ اس پر گمان ہی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ اس قدر کھلنڈرا اور ہنسنے ہنسانے والا شخص اس قدر بے رحم و سنگ دل بھی ہو سکتا ہے۔

”گیٹ لاسٹ… کیا شکل دیکھ رہی ہو میری؟“ وہ دانتوں سے ہونٹ کاٹتی ہوئی نکلی تھی تو اس نے سرعت سے دروازہ لاک کر دیا۔

”اوگاڈ! یہ کیا چکر چل پڑا ہے  ایک بہن کا اگر بے تکلفی سے ہاتھ پکڑ لو تو وہ ہتک عزت کا دعویٰ کرنے لگتی ہے اور دوسری بہن رات کے اس پہر تنہائی میں مجھ سے محبت کا اقرار کرتی ہے  اٹس ویری امیزنگ… ”اس نے گہری سانس لیتے ہوئے بیڈ پر لیٹتے ہوئے سوچا۔

###

”عادلہ کسی پیشہ ور بھکاری کی طرح دھتکاری گئی تھی۔ وہ طغرل کے روم سے نکلی تو محسوس ہوا وہ کمرہ نہیں دہکتا ہوا الاؤ تھا  ایک الاؤ جس کی آگ میں ذلت تھی جو اس کی رگ و پے میں پھیلتی ہی جا رہی تھی۔

وہ کمرے میں آئی تو عائزہ کو جاگتے ہوئے پاکر بری طرح نروس ہوئی تھی۔ عائزہ نے گہری نظروں سے اس کا سرتاپا جائزہ لیا تھا اور پھر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔

”چخ چخ… لگتا ہے بات نہیں بنی میری بہنا کی؟“ وہ ہنستے ہوئے طنزیہ لہجے میں گویا ہوئی تھی۔

”کک… کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا بات نہیں بنی؟“ وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر گویا ہوئی تھی۔

”تم جو مجھے سوتی ہوئی سمجھ کر یہاں سے خوب تیار ہو کر گئی تھیں  تمہارے کمرے سے نکلنے کے بعد میں نے دیکھا تھا تمہیں… تمہیں طغرل کے روم میں گھستے دیکھ کر میں بے حد خوش ہوئی تھی۔

”تم مجھے طغرل کے روم میں جاتے دیکھ کر کیوں خوش ہوئی تھیں؟“ عائزہ کی باتوں نے اسے چونکا دیا۔

”میرا بہت ادھار نکلتا ہے اس عزت کے علمبردار شخص کی طرف۔“ عائزہ کے لہجے اور آنکھوں میں نفرت ہی نفرت تھی۔“ ”میں تو خوش ہو رہی تھی کہ اتنی جلد مجھے موقع مل گیا اپنی حسرتوں کی جلتی آگ پر انتقام کا پانی چھڑکنے کا  طغرل کو میں نے کمرے میں جاتے ہوئے دیکھا اور میں کی ہول سے اندر دیکھنے لگی تھی اور میں انتظار میں تھی تم دونوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر دادی جان اور پاپا کو بلا کر لاؤں گی مگر…“ وہ مایوسی سے بولی۔

”مگر… وہاں ایسا کچھ نہیں ہوا اور طغرل نے جس طرح تمہیں بے عزت کیا اس نے میرے سارے ارادوں پر مٹی ڈال دی اور میں وہاں سے آ گئی۔“

”تم نے کیوں نہیں لیا اپنا بدلہ؟ پاپا اور دادی کو بلا لیتیں  رات کے اس ٹائم لاکڈ کمرے میں ہم دونوں کی موجودگی رسوائی کیلئے کافی تھی۔“ وہ عجیب لہجے میں بولی۔ ”میں کہہ دیتی دادی اور ڈیڈی سے… طغرل مجھے زبردستی لے کر آیا ہے اور یہ مجھے اپنے بیڈ روم میں لاتا رہتا ہے۔
“ عائزہ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔

”محبت میں ناکامی نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے عادلہ!“

”تم نے گولڈن چانس مس کر دیا عائزہ! ذرا سوچو تو طغرل کی بات کا کوئی یقین نہیں کرتا  صبح ہوتے ہی ہمارا نکاح پڑھوا دیا جاتا  یہ عزت کی بات تھی… وہ بھی اسی گھر کی بیٹی کی۔“ عادلہ نے لمحوں میں پورا خاکہ تیار کر لیا تھا۔

”میں دادی اور ڈیڈی کو بلا کر لے آتی اور پھر تمہارے ساتھ ساتھ میرے بھی جوتے پڑتے بے حساب۔
ذرا اپنی ڈریسنگ دیکھو  یہ میک اپ  جیولری اور لباس کون کہہ سکتا ہے تمہیں طغرل زبردستی بیڈ روم میں لے کر گیا ہوگا؟“

”اوہ! کچھ کام نہیں آیا میرا۔“ عادلہ رونے بیٹھ گئی۔

”عادلہ بی بی! وہ میموں میں پلا بڑھا شخص ہے  اس کو تم جیسی لوکل بیوٹی دیوانہ نہیں بنا سکتی  وہ صرف بھائی بن سکتا ہے۔“

###

سنو ہر قدم پر تیری محبت کا احساس چاہئے

مجھے اتنا ہی تمہارا ساتھ چاہئے

وقت بھی رو پڑے ہماری جدائی پر

یہ رشتہ مجھے اتنا خاص چاہئے

رخ کو نہیں معلوم تھا کہ گلفام نے کس طرح سے گھر والوں کو منگنی کی تقریب سے روکا تھا؟ جو وہ چاہتی تھی وہ ہی ہوا تھا۔
گلفام نے اس کے انکار کو اپنی زبان دے دی تھی  کسی کو نہیں بتایا تھا اس تقریب کے ملتوی کرنے کی وجہ رخ کی امتحانات کی تیاری ہے۔

بہت سہل انداز میں بات دب گئی تھی اور اگر یہی وجہ وہ بیان کرکے منگنی ملتوی کرنا چاہتی تو امی ایک ہنگامہ مچا دیتیں اور ساتھ میں اس کو کیا کچھ نہ سننے کو ملتا ان سے۔

”کم آن یار! کن خیالوں میں گم ہو؟ سوپ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
“ اعوان نے چمچ بنا کر اس کو خیالوں سے کھینچا۔

”اوہ… سوری اعوان!“ وہ خفت سے مسکرا کر سوپ پر جھک گئی۔

”میں نوٹ کر رہا ہوں  جب سے میرا جانے کا تم نے سنا ہے بہت گم صم اور پریشان رہنے لگی ہو۔“ اعوان کی پوری توجہ اس کی طرف تھی مگر وہ خاموشی سے سوپ پیتی رہی  جیسے خفگی کا اظہار کر رہی ہو۔

”تمہاری منگنی کا کیا ہوا؟“

”تمہیں کیا… بھلے ہو جائے تمہیں کیا فرق پڑنے والا ہے؟ تم مزے سے اپنے جانے کی تیاری کرتے رہو۔
“ وہ غصے سے منہ پھلا کر گویا ہوئی۔

اعوان نے بڑی محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر مسکرا کر کہا۔

”پلیز… مورننگ کی میری فلائٹ ہے اور میں چاہتا ہو ں  یہ ٹائم ہم بہت خوشگوار ماحول میں گزاریں کریں  جب بھی تنہائی میں تمہارے بارے میں سوچوں تو خوبصورت باتیں یاد آئیں ناکہ یہ پھولا ہوا غبارے جیسا منہ۔“ وہ شوخ ہوا تھا۔

”مائی گاڈ… میرا منہ غبارے جیسا لگ رہا ہے تمہیں۔

”ہے تو نہیں مگر تم اس وقت بنا رہی ہو۔“

”اپنے بارے میں کیا خیال ہے جناب کا؟ ایک تو میری بات نہیں مانتے اوپر سے مجھے ہی طعنہ دے رہے ہو منہ پھلانے کا۔“ اس کی آنکھیں دھیرے دھیرے گیلی ہونے لگی تھیں۔

”میں تم سے فلرٹ نہیں کر رہا ہوں رخ! نہ ہی ٹائم پاس کرنے کا ارادہ ہے  میں تو کہہ رہا ہوں  مجھے اپنے ڈیڈی کے سامنے لے چلو  میں ان کو اپنا پرپوزل دوں گا اور مجھے یقین ہے وہ مان جائیں گے  جب وہ تم سے اتنی محبت کرتے ہیں پھر وہ تمہاری زندگی کا فیصلہ اپنی مرضی سے نہیں کریں گے۔

”تم نہیں جانتے میری ڈیڈی کو  وہ اس بات کو اپنی غیرت کا مسئلہ بنا لیں گے اور یہ بھی ممکن ہے مجھے شوٹ کر دیں۔“

”وہاٹ…!“ اعوان کے انداز میں بھرپور حیرانگی در آئی تھی۔

”صحیح کہہ رہی ہوں میں  وہ یہ کبھی بھی پسند نہیں کریں گے کہ میں لو میرج کروں  بہت بڑا مسئلہ ہو جائے گا  تم نہیں سمجھ سکتے ہو؟“

”وہ تمہارے رئیل فادر ہیں رخ؟“ وہ شاکڈ تھا۔

”ہاں  وہ میرے رئیل فادر ہیں مگر اپنی اصول پرستی کی خاطر وہ کسی سے بھی کمپرومائز نہیں کرتے ہیں  بے حد سخت ہیں وہ۔“

”لیکن… اس طرح تو میری مما اور ڈیڈی نہیں مانیں گے۔“ اعوان سخت الجھن کا شکار تھا اس وقت اور رخ کی ہر ممکن یہی کوشش تھی کہ وہ کورٹ میرج پر راضی ہو جائے اور اس کی گلفام سے ہمیشہ کیلئے جان چھوٹ جائے۔

”جب ہی تو میں کہہ رہی ہوں ہم ابھی کورٹ میرج کر لیتے ہیں  بعد میں سب مان جائیں گے وگرنہ ہمیں ملنے نہیں دیا جائے گا۔
“ آنسو اس کے چہرے پر پھیلنے لگے تھے۔

”پلیز… تم روؤ مت!“

”پھر کیا کروں؟ تم کورٹ میرج کیلئے راضی ہی نہیں ہو رہے ہیں ہو  نامعلوم کس طرح کی محبت کرتے ہو تم مجھ سے؟“ ٹشو پیپر سے آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے طنزیہ کہا تھا۔

”دل کی گہرائیوں سے محبت کرتا ہوں میں تم سے  اچھا ٹھہرو میں ساحر سے مشورہ کرتا ہوں بلکہ اس کو یہیں بلاتا ہوں۔“ وہاں سے اٹھ کر ریسپشن کی طرف بڑھ گیا فون کرنے۔

   2
0 Comments